حیاتِ شیخ عبد القدوس گنگوہی

 

از: پروفیسر رضی احمد کمال‏، صدر شعبہٴ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

 

شیخ عبدالقدوس گنگوہی کا شمار ہندوستان کے ان صوفیائے کرام میں ہوتا ہے جن کے شخصی اور روحانی اثرات اور تعلیمی و تبلیغی خدمات کا بیشتر تذکرہ نگاروں نے اعتراف کیا ہے، ان کے اجداد میں شیخ نظام الدین پہلے بزرگ ہیں جو ساتویں صدی ہجری مطابق تیرہویں صدی عیسوی میں اپنے صاحبزادے شیخ نصیرالدین کے ہمراہ دہلی آئے، یہ علاؤالدین خلجی کا دور حکومت تھا(۱) صاحب نزہت الخواطر لکھتے ہیں: ”قاضی نظام الدین اپنے والد کی رحلت کے بعد ہندوستان آئے۔“(۲) اسی زمانے میں ایک اور بزرگ قاضی شہاب الدین جو شیخ نظام الدین کے عزیز تھے غزنی سے دولت آباد ہوتے ہوئے دہلی تشریف لائے، یہاں قاضی عبدالمقتدر اور مولانا خواجگی دہلوی سے علومِ ظاہری اور فیوضِ باطنی کے اکتساب کے بعد قاضی شہاب الدین جون پور تشریف لے گئے، اس وقت وہاں سلطان ابراہیم شرقی کی حکومت قائم تھی، جو علم و فضل کا قدر دان اور علماء کی بیحد تعظیم کرنے والا تھا؛ چنانچہ اس نے قاضی شہاب الدین کے جون پور پہنچنے پر ان کی بہت قدر افزائی کی اور صدر العلماء کے خطاب سے نوازا، جون پور میں یہ قاضی شہاب الدین کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا۔

          محمد قاسم فرشتہ لکھتا ہے:

          ”واز جملہ فضلائے عصر قاضی شہاب الدین جون پوری ست، اصل او از غرنین ست، در دولت آباد دکن نشوو نمایافت، سلطان ابراہیم در تعظیم و توقیر او بسیار کوشید و در روزہائے در مجلس او برکر سئی نقرہ می نشست۔“(۲)

          (ترجمہ: اور ا سوقت کے تمام فضلاء اور علماء میں ایک شخصیت قاضی شہاب الدین جون پوری کی ہے جو اصلاً غزنین کے رہنے والے ہیں اور بعد میں دولت آباد دکن میں پرورش پائی، شرقی بادشاہ سلطان ابراہیم نے ان کی بہت زیادہ تعظیم و تکریم کی اور دربار میں مجلس کے اوقات میں قاضی شہاب الدین دولت آبادی چاندی کی کرسی پر بیٹھا کرتے تھے۔)

          اسی زمانے میں شیخ نظام الدین بھی قاضی شہاب الدین کی قرابت قریبہ کی وجہ سے دہلی سے جون پور آکر آباد ہو گئے، یہاں قاضی شہاب الدین نے اپنی صاحبزادی کی شادی شیخ نظام الدین کے صاحبزادہ نصیرالدین سے کردی، جن سے تین بیٹے، صفی الدین، فخرالدین اور رضی الدین پیدا ہوئے، جون پور میں کچھ عرصے قیام کے بعد نصیرالدین اپنے اہل وعیال کے ساتھ ردولی منتقل ہو گئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار فرمائی۔

          شیخ نصیرالدین کے تینوں صاحبزادے مقتدر عالم اور اساتذہ وقت ہوئے ہیں، شیخ صفی الدین کے علم وفضل، زہدو تقوی اور خدا ترسی کے بارے میں ان کے تمام تذکرہ نگار اتفاق رائے رکھتے ہیں، صاحب نزہة الخواطر لکھتے ہیں:

          ”شیخ صفی الدین، قاضی شہاب الدین دولت آبادی کے نواسے اپنے ذہن کی رسائی کی وجہ سے نوادرِ زمانہ سے تھے۔“(۳)

          راہِ طریقت میں شیخ صفی الدین، شیخ اشرف جہانگیر سمنانی سے فیض یافتہ تھے، شیخ اشرف جہانگیر سمنانی ان کی علمی خصوصیات کو سرا ہتے ہوئے فرماتے ہیں:

          ”شیخ صفی تو علوم و فنون کے لحاظ سے تمام ہندوستان کے عجائبات میں سے تھے۔“(۴)

          شیخ صفی الدین کے خصائص بیان کرتے ہوئے عبدالرحمن چشتی تحریر فرماتے ہیں:

           ”حضرت مخدوم شیخ صفی الدین قدس سرہُ العزیز اگرچہ ازفرزندانِ امام ہمام حضرت امام اعظم است امابا عتبار علم و فضل، زہدو تقوی، کمالات معنوی، ثانی ابو حنیفہ است۔“(۵)

          (ترجمہ: حضرت مخددم شیخ صفی الدین قدس سرہُ العزیز اگرچہ حضرت امام اعظم جیسے اہم امام کے صاحبزادوں میں سے ہیں لیکن علم و فضل، زہدو تقویٰ اور معنوی کمالات میں دوسرے ابوحنیفہ ہیں۔)

          شیخ صفی الدین نے سلسلہٴ چشتیہ نظامیہ میں شیخ اشرف جہانگیر سمنانی سے حصولِ خلافت کے بعد بنگال، جون پور اور اودھ کے مختلف علاقوں میں ایک عرصے تک سیر وسیاحت کرنے کے بعد وطن مراجعت فرمائی اور یہاں واپسی پر عہدئہ قضا پر فائز ہوئے، اس کے بعد شیخ صفی الدین کی شادی صفیہ بی بی سے ہوئی جو ردولی کے ایک معزز گھرانے کی دختر نیک اختر تھیں۔

          ۱۲/ربیع الاول ۷۸۹ھ مطابق ۱۳۷۷ء کو شیخ صفی الدین کے یہاں شیخ اسماعیل پیدا ہوئے، جو شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے والد ماجد ہیں۔

          شیخ محمد اسماعیل نے اپنے والد ہی سے تعلیم و تربیت حاصل کی، علومِ ظاہری وباطنی سے فراغت کے بعد قاضی اسماعیل کی شادی قاضی دانیال کی ہمشیرہ مریم سے ہوئی ، قاضی صاحب کا خاندان اپنی شرافت اور زہد وتقوی کی وجہ سے ردولی میں ممتاز تھا، قاضی اسماعیل کے چار فرزند ہوئے، عبدالصمد، عزیز اللہ، عبدالقدوس اور جیب اللہ۔ شیخ صفی الدین نے ۱۳/ذیقعدہ ۸۱۹ھ مطابق ۱۴۱۶ء کو وفات پائی، والد کی وفات کے بعد، شیخ اسماعیل مسندِار شادو تلقین پر بطور جانشین فائز ہوئے۔ شیخ اسماعیل کی زندگی کا بڑا حصہ درس و تدریس اور رشدد ہدایت میں گزرا، شیخ اسماعیل کی وفات ۸۶۰ھ مطابق ۱۴۵۶ء کو ردولی میں ہوئی اور اپنے والد شیخ صفی الدین کے قریب دفن ہوئے۔

شیخ عبدالقدوس کی ولادت اور ابتدائی تعلیم و تربیت

          شیخ عبدالقدوس گنگوہی کی ولادت ۸۵۲ھ مطابق ۱۴۵۰ء ردولی میں ہوئی، شیخ عبدالقدوس امام اعظم ابو حنیفہ کی چھبیسویں پشت میں شمار کیے جاتے ہیں۔

          شیخ عبدالقدوس بن مولوی اسماعیل بن قاضی صفی الدین بن خواجہ نصیرالدین بن خواجہ نظام الدین بن خواجہ آدم بن خواجہ ظہیر الدین بن خواجہ احمد بن خواجہ عبدالواسع بن خواجہ عبدالقادر بن عبدالغنی بن عثمان بن اسحاق بن عمر بن فضل اللہ بن نصیرالدین بن سعد الدین بن نجم الدین بن داؤد بن جعفر بن حامد بن خیرالدین بن امام طاہر بن امام ابراہیم بن امام احمد بن امام اعظم ابی حنیفہ۔(۶) حضرت امام اعظم کی اولاد میں ہونے کی وجہ سے شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے اپنے نام کے ساتھ حنفی نسبت کا استعمال کیا ہے، اگرچہ اس سلسلے میں یہ بھی خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ حنفی مسلک رکھنے کی وجہ سے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ اس نسبت کو استعمال کیا ہے؛ مگر صاحب مفتاح التواریخ کی عبارت اور شجرہٴ حسب ونسب سے یہ بات پایہٴ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ امامِ اعظم ابوحنیفہ کی اولاد میں سے ہیں، صاحبِ مفتاح التواریخ نے لکھا ہے:

          ”ازمشاہیر مشائخ ہنداست وازاولاد امام اعظم ابو حنیفہ کوفی ست۔“(۷)

          (ترجمہ: ہندوستان کے مشہور مشانح میں سے ہیں اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کوفی کی اولاد میں سے ہیں۔)

          شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے والد شیخ اسماعیل نے بچپن ہی سے اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ فرمائی اور خطوط نویسی اور خوش نویسی کی تربیت شیخ عبدالقدوس کو اپنے والد سے ہی حاصل ہوئی تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کے مکاتیب اپنی دل آویزی کے لیے مشہور ہیں، زمانہٴ طالب علمی میں شیخ عبدالقدوس کے ذوق کا یہ عالم تھا کہ وہ دن رات تحصیل علم میں مصروف رہتے تھے، انھوں نے ابتداء سے ہی حصول علم اور عبارت وریاضت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا، شیخ رکن الدین، ان کے ذوقِ علم اور شوقِ عبادت پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں: ”چوں حضرت قطبی بہ تعلیم کتا بہا مشغول شدند در تمام روزمی خواندو تمام شب بشغل ذکرو عبادت حق مشغول بودند۔“(۸) (ترجمہ : جب حضرت قطبی کتابوں کے مطالعہ اور تعلیم میں مشغول ہوئے تو سارا دن کتابیں پڑھتے رہتے اور ساری رات ذکر کے شغل میں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے)

          آپ ابتداء سے ہی نہایت ذہین اور نکتہ رس تھے، اسی وجہ سے اساتذہ بھی ان پر خاص توجہ اور شفقت فرماتے، دورانِ طالب علمی ہی میں ایک کتاب علم الصرف میں تصنیف فرمائی تھی، شیخ عبدالقدوس کی کتابی تعلیم صرف کافیہ(۹)ہی تک ہو پائی تھی کہ عشقِ الٰہی سے سر شار ہو کر ظاہری تعلیم کو ترک کر دیا اور خرقہ پوشی احتیار کرلی، اس صورتِ حال سے ان کی والدہ کو بہت تشویش ہوئی اور اپنے بھائی قاضی دانیال کو صورتِ حال سے آگاہ کیا، قاضی صاحب نے شیخ عبدالقدوس سے ترکِ تعلیم پر باز پرس فرمائی، ساتھ ہی تنبیہہ بھی کی، ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ کچھ عورتیں قریب سے گاتی ہوئی گزریں، گانے کی آواز سن کر شیخ عبدالقدوس پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی، قاضی صاحب نے اس کیفیت کو دیکھنے کے بعد بہن کو تسلی دی اور کہا: آپ فکر نہ کریں! انشاء اللہ بہتر ہی ہوگا۔

          شیخ عبدالقدوس نے اگرچہ چند ابتدائی کتابوں کے سوا تعلیم حاصل نہیں کی تھی؛ مگر علومِ ظاہری میں ان کو منجانب اللہ کمال حاصل تھا، شیخ رکن الدین فرماتے ہیں:

          ”اگرچہ میرے والد حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے اصولِ فقہ کی تعلیم بالکل حاصل نہیں کی تھی؛ لیکن آپ مجھے اصولِ فقہ میں اصولِ شاسی،(۱۰) حسامی اور اصولِ فقہ کی دوسری کتابوں کا درس دیتے تھے۔“(۱۱)

          بیعت و خلافت: شیخ عبدالقدوس گنگوہی بظاہر شیخ محمد بن شیخ عارف بن شیخ احمد عبدالحق کے مرید و خلیفہ تھے؛ لیکن شیخ احمد عبدالحق ردولوی سے انھیں بے انتہا عقیدت و تعلق تھا، اسی تعلق کی وجہ سے ان کو شیخ احمد عبدالحق سے بھی فیضِ روحانی حاصل تھا، جس کا اظہار شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے خود انوار العیون میں تحریر فرمایا ہے:

          ”اجازت ایں فقیر باحضرت شیخ العالم در عالمِ معاملہ اول درست گشت، بعدہ بانبیرہ حضرت شیخ العالم شیخ الوقت حضرت شیخ محمد مَدَّظِلَّہ وَاَعْلٰی قَدْرَہ بیعت کر دیم، واز شرفِ اجازت مشرف گشتیم و حضرت شیخ العالم (شیح احمد عبدالحق) ایں فقیررا درعالم معاملہ چند بار لطف کردند، ودست گرفتہ بہ زبان کرم فرمودند کہ ترابہ خدا رسانیدم، الحمد للہ علی ذلک، چنداں معاملہ باحضرت شیخ العالم کہ در حدو غدنبایند․․․ ایں معاملہ مارا در ظہور ولایت حضرت شیخ العالم بعد چہل سال ازر حلت شیخ العالم بودہ است۔“(۱۲)

          (ترجمہ: اس فقیر کو اجازت جناب شیخ العالم سے معاملے کے پہلے ہی عالم میں حاصل ہوگئی تھی، اس کے بعد حضرت شیخ العالم کے پوتے شیخ الوقت حضرت شیخ محمد مَدَّظِلَّہ وَاَعْلٰی قَدْرَہ (اللہ ان کی قدر و منزلت کو بڑھائے) ان سے بیعت کی اور اجازت کے شرف سے مشرف ہوا، اور حضرت شیخ العالم (شیخ احمد عبدالحق نے اس فقیر پر معاملے کے عالم میں کئی بار لطف فرمایا اور ہاتھ پکڑ کر اکرام و الطاف کی زبان سے فرمایا کہ میں نے تمہیں خدا تک پہنچایا، الحمد للہ علی ذلک، اسی طرح سے یہ معاملات حضرت شیخ العالم کے ساتھ اتنی بار ہوئے کہ شمار و قطارمیں نہیں آتے، یہ معاملات ہمیں حضرت شیخ العالم کی رحلت کے چالیس سال بعد ولایت کی شکل میں حاصل ہوئے) شیخ محمد سے اجازت و خلافت کے بعد شیخ عبدالقدوس نے خانقاہ شیخ احمد عبدالحق میں کافی وقت مجاہدے اور ریاضتوں میں گزارا، جہاں وہ اپنے ان مجاہدات کے علاوہ خانقاہ کی صفائی، وہاں کے مہمانوں کی خدمت ان کے کھانا پکانے کے لیے جنگل سے لکڑیاں لانا، جیسے کام ان کے معمولات میں شامل تھے، اس سخت محنت و مشقت کی وجہ سے ان کی صحت بھی متاثر ہو گئی تھی، بقول شیخ رکن الدین مزاج میں بہت حدت پیدا ہوگئی تھی اور اس زمانے میں صرف ایک گدڑی زیب تن فرمایا کرتے تھے، ان کا کہنا ہے کہ میری پیدائش تک والد نے اس کے علاوہ کوئی دوسرا لباس اختیار نہیں کیا، ایک گدڑی جس میں بیسیوں پیوند لگے ہوئے تھے، وہی ان کا لباس تھا، جس طرح روزہ، نماز اور وظائف کو پابندی سے ادا کرتے، اسی طرح روز ایک پیوند گدڑی میں پابندی سے لگاتے تھے۔

          شیخ عبدالقدوسکا زیادہ وقت عبادات ہی میں گزرتا تھا، فرض سنتوں اور مقررہ نوافل کے علاوہ روزمرہ کے اور ادو وظائف بہت پابندی سے بڑھتے تھے، نماز سے والہانہ عشق کی یہ کیفیت تھی کہ شدید سردی کے زمانے میں بھی ساری رات نوافل کھڑے ہوکر پڑھا کرتے تھے، شیخ رکن الدین فرماتے ہیں کہ شب براء ت میں ایک قرآن مجید سو رکعتوں میں با جماعت ختم ہونے کا شیخ کے یہاں معمول تھا۔ اس رات حافظ شیخ احمد، صاحبزادئہ شیح عبدالقدوس امامت فرمایا کرتے تھے، رمضان المبارک میں تین قرآن مجید سننے کا معمول ساری زندگی رہا، اپنے ذکر واذکار کے معمولات کے سلسلے میں شیخ عبدالقدوس بیان فرماتے ہیں:

          ”میری عمر کے کئی سال اس طرح گزرے ہیں کہ میں عشاء کی نماز کے بعد سے ذکر بالجہر شروع کرتا تھا، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی تھی۔“(۱۳) ان عبادات وریاضات کے علاوہ شیخ عبدالقددس کا یہ معمول بھی تھا کہ وہ رمضان کے علاوہ بھی سال بھر کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔ شیخ رکن الدین تحریر فرماتے ہیں:

          ”میں نے چالیس سال میں آپ کو سوائے ایامِ ممنوعہ کے جو پانچ دن ہیں بغیر روزے کے نہیں دیکھا۔“(۱۴)

          قیام ردولی کے زمانے ہی میں شیخ عبدالقددس کی شادی، شیخ عارف کی صاحبزادی سے ہوگئی تھی۔ یہ خاتون بڑی عابدہ اور زاہدہ بی بی تھیں۔ والد اور دادا دونوں کی نسبت وتعلق کے تمام اثرات موصوفہ میں موجود تھے۔

          شیخ عبدالقدوس کُلُوا مِمَّا فِی الأرْضِ حَلَالاً طَیِّبًا کے اصول کے مطابق ساری زندگی حلال روزی کے حصول پر ہی عمل کیا اور اسی بنا پر زراعت کا پیشہ اختیار کیا۔جس سے اپنی اور گھر والوں کی ضروریات پوری فرماتے تھے۔

          شیخ عبدالقدوس کے تذکرہ نگاروں نے ان کے ذریعہٴ معاش پر کوئی خاص روشنی نہیں ڈالی ہے۔ صاحب خزینتہُ الاصفیاء کے یہاں صرف اتنا تذکرہ پایا جاتا ہے:

          ”وہ حلال روزی حاصل کرنے کے لیے زراعت کرتے تھے، جب ان کے کھیت میں غلہ تیار ہو جاتا ہے تو سب سے پہلے درویشوں کو دیا کرتے تھے، بعدہ اپنی ضرورت بھر رکھ لیا کرتے تھے“(۱۵)

          شیخ عبدالقدوس کو چاروں سلاسل طریقت میں اجازت حاصل تھی، سلسلہٴ چشتیہ صابر یہ میں بظاہر انھیں شیخ محمد بن شیح عارف سے اجازت حاصل تھی؛ لیکن فیض خاص کا تعلق شیخ احمد عبدالحق سے قائم رہا، جیسا کہ ایک مقام پر خود فرماتے ہیں: ”اگرچہ ارادتِ من بہ مخدوم شیخ محمد است؛ لیکن بیشتر اخذِ فیوض مرااز باطن جدِّ اوشیخ احمداست قُدِّسَ سِرُّہُما۔“(۱۶)

          (ترجمہ: اگر چہ میری ارادت میرے مخدوم شیخ محمد سے ہے؛ لیکن مجھے جو فیوض حاصل ہیں وہ زیادہ تران کے دادا شیخ احمد قدس سرہما سے باطنی طور پر حاصل ہوئے ہیں۔)

          سلسلہٴ چشتیہ نظامیہ میں شیخ عبدالقدوس کو شیخ درویش بن قاسم اودھی سے اجازت حاصل تھی، نیزاسی واسطے سے انھیں سلسلہٴ سہرو ردیہ، تقشبندیہ اور قادریہ میں بھی اجازت حاصل تھی۔ شاہ سید محمدحسین مراد آبادی نے شیخ عبدالقدوس کے روحانی سلاسل کی تفصیل میں ”سلاسلِ اربعین“ کے نام سے ایک رسالہ تصنیف فرمایا ہے۔ حصولِ خلافت کے بعد شیخ عبدالقدوس نے ردولی ہی میں قیام کیا؛ مگر جب ردولی کے حالات زیادہ خراب ہو گئے تو عمر خاں شیرانی حاکمِ شاہ آباد کے اصرار اور خواہش پر ۸۹۶ھ مطابق ۱۴۹۱ء میں مع اہل و عیال ردولی سے شاہ آباد منتقل ہو گئے۔

          صاحب شرف المناقب نے اس واقعے کو قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: ”درسن ستہ و تسعین و ثمانیہ ہجری ازابتدائے سلطنت سلطان سکندر بن سلطان بہلول لودھی بموجب درخواست عمر خاں کاشی کہ اعظم امراء سلطان سکندر بود و بخدمت شیخ عبدالقدوس حنفی اعتقاد تمام داشت معہ فرز ندان ازردولی انتقال نمودہ در قصبہٴ شاہ آباد کہ بہ نواحِ دہلی بود درآں جا سکونت نمود و شہرت بسیار یافت۔“(۱۷)

          (ترجمہ: ۸۹۶ء کے سال میں سلطان سکندربن سلطان بہلول لودھی کی سلطنت کے ابتدائی زمانے میں عمر خاں کاشی کی درخواست کے مطابق جو کہ سلطان سکندر کے بڑے امراء میں سے تھا اور حضرت شیخ عبدالقدوس حنفی سے انتہائی عقیدت رکھتا تھا، اپنے بیٹوں کے ساتھ ردولی سے منتقل ہو کر شاہ آباد کے قصبے میں جو کہ دہلی کے اطراف میں تھا، چلے آئے اور وہاں سکونت اختیار کی اور بہت شہرت پائی۔ شاہ آباد میں تقریباً اڑتیس سال شیخ عبدالقدوس کا قیام رہا، شیخ حمید کے علاوہ باقی تمام صاحبزاد گان کی ولادت شاہ آباد میں ہی ہوئی، ۹۳۴ھ مطابق ۱۵۲۶ء اپنے ایک مرید ملک عثمان کی درخواست پر مع اہل و عیال شاہ آباد سے گنگوہ منتقل ہو گئے، اور پھر یہیں اپنی عمر کے آخری ایام تک قیام فرمایا، شاہ آباد سے گنگوہ کی آمد پر صاحب ”بحر زخار“ تحریر فرماتے ہیں:

          ”سی وچند سال در اجرائے سلطنت سکندر بادشاہ آباد ماند و شہرت کمال یافت، دروقت بابر بادشاہ کہ شاہ آباد خراب شدبہ گنگوہ آمد و مسندِ فیض وارشاد رابیاراست۔“(۱۸)

          (ترجمہ: تیس سال سے کچھ زیادہ سلطان سکندر کی سلطنت کے زمانے میں شاہ آباد میں رہے اور کمال کی شہرت پائی پھر بابر بادشاہ کے زمانے میں جب شاہ آباد تباہ ہو گیا تو گنگوہ آئے اور فیض و ارشاد کی مسند کو زینت بخشی۔)

          قیام گنگوہ(۱۹) کے دوران مغلوں کے حملوں کی وجہ سے ایسے حالات خراب ہوئے کہ بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں، خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ لوگ اپنے گھروں سے بھاگ کر جائے پناہ تلاش کرتے تھے، انہی حالات میں شیخ عبدالقدوس بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ دریائے جمنا کے کنارے ”کتانہ“ نامی ایک گاؤں میں تشریف لے گئے، اسی زمانے میں دریائے جمنا کے مغربی کنارے پر ابراہیم لودھی کا لشکر بابر سے مقابلہ آرائی کے لیے خیمہ زن تھا، جس میں شیخ عبدالقدوس کے بہت سے معتقد و مرید بھی شامل تھے، ان لوگوں کو شیخ کے قیام کی اطلاع ہوئی تو معتقدین جوق در جوق ان سے ملاقات کے لیے آنے لگے، ابراہیم لودھی کو جب اس صورتِ حال کا علم ہوا تو وہ خود بھی شیخ عبدالقدوس کی خدمت میں پہنچا اور بہت اصرار و گزارش سے انھیں اپنے لشکر میں لے آیا، اس ملاقات میں شیخ عبدالقدوس نے ابراہیم لودھی سے فرمایا:

          ”مجھے اس مرتبہ خیریت معلوم نہیں ہوتی اور میں تمہیں پانی پت سے آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھتا۔“(۲۰) ابراہیم لودھی کے ساتھ خود تو لشکر میں چلے آئے؛ مگر اپنے اہل وعیال کو شیخ رکن الدین کے ہمراہ گنگوہ روانہ کردیا۔ بڑے صاحبزداے شیخ حمید اور سید راجہ مرید و خادم خاص شیخ عبدالقدوس کے ساتھ ہی رہے۔

          ابراہیم لودھی اور باہر کی فوجوں کے درمیان آغازِ جنگ سے قبل ہی شیخ عبدالقدوس نے اس بات کا اشارہ فرما دیا تھا کہ مجھے اپنے گھوڑے کی رفتار سے یقین ہوتا ہے کہ ابراہیم کو یقینا شکست ہوگی۔(۲۱)

          ملاعبدالقادر بدایونی، بابر اور ابراہیم لودھی کی اس جنگ کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          ۸ /رجب ۹۳۲ھ مطابق ۱۵۲۵ء کو بابر اور ابراہیم لودھی کے درمیان جنگ شروع ہوئی ابراہیم لودھی کو شکست کامنہ دیکھنا پڑا۔“(۲۲)

          بابر کی فوج نے حصولِ فتح کے بعد اور جنگی قیدیوں کے ہمراہ شیح عبدالقدوس اور ان کے ساتھیوں کو بھی اپنی گرفت میں لے کر پانی پت سے دہلی تک پیدل چلنے کا حکم دیا، اگرچہ شیخ عبدالقدوس کی صحت اس قابل نہ تھی؛ لیکن پھر بھی وہ پانی پت سے باہر کی فوج کے ہمراہ پیدل چل کر دہلی پہنچے۔ شیخ رکن الدین اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

          ”آپ پانی پت سے دہلی پیدل تشریف لائے؛ لیکن بعد میں آپ کو رہائی مل گئی اور گنگوہ تشریف لے آئے۔“(۲۳)

          لودھیوں میں خاص طور پر سکندر لودھی سے شیخ عبدالقدوس کو خاص تعلق تھا، اس کی وجہ سکندر لودھی کے عہدِ حکومت میں شعائرِ اسلام کا رواج پذیر ہونا بڑا سبب تھا، عبدالحق محدث دہلوی اس سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں:

          ”دورا سکندریہ کہ زمانِ اصلاح و ورع و دیانت و صیانت بود، بسیار ازا کا بر علماء از اطراف واکناف عالم ازعرب و عجم دراں زماں تشریف آوردہ دریں دیار توطن فرمودند۔“(۲۴)

          (ترجمہ: سکندری سلطنت جو کہ اصلاح، پاکیزگی، دیانت اور پاک بازی کا زمانہ تھی، اس وقت بہت سارے بڑے بڑے علماء، عرب و عجم اور ہر گوشے و کنارے سے یہاں تشریف لائے اور اسے اپنا وطن بنایا)

          شیخ عبدالقدوس نے اپنے ابتدائی زمانے میں سلسلے کے اکابرین کے اصول کے مطابق سیاست اور حکمرانوں سے کسی طرح کا کوئی تعلق قائم نہیں رکھا تھا، یہی وجہ تھی کہ جب کبھی قاضی محمود داروغہٴ ردولی شیخ عبدالقدوس سے ملاقات کے لیے حاضر ہوتا تو اس کی آمد کی خبر سن کر شیخ عبدالقدوس کسی ویرانے کی طرف نکل جاتے اور فرمایا کرتے تھے کہ” ان دنیاداروں سے ناگوار بو آتی ہے، اسی لیے میں ویرانوں میں چلا جاتا ہوں۔“(۲۵)

          مگر بعد میں شیخ عبدالقدوس نے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ مخلوقِ خدا اور دین و شریعت کی حفاظت کی خاطر ان کا شاہانِ وقت سے تعلق قائم ہونا ضروری ہے، یہی وجہ تھی کہ جس نے انھیں باقاعدہ اپنے وقت کے سلاطین و امراء سے روابط قائم کرنے پر آمادہ کیا اور انھوں نے ان حکمرانوں کو تلقین وہدایت کے خطوط لکھے، مخلوق کی خدمت ان کی غم خواری، ائمہ اور علماء کی تیمارداری اور ان کی تعظیم و توقیر کی طرف توجہ دلائی۔ اسلامی نقطئہ نظر سے اسلامی حکومت کے سربراہوں، فرما نرواؤں اور امراء کو کن اوصاف سے متصف ہونا چاہیے، اس طرف بھی اشارے فرمائے۔ اور انھیں لکھا کہ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوکِھِمْ کے اصول کے مطابق بادشاہوں اور ان کے عاملوں کو چاہیے کہ وہ احکامِ شرع کے ادا کرنے میں پوری پوری احتیاط سے کام لیں؛ تاکہ ان کو دیکھ کر عوام و خواص بھی شریعت کے پابند ہوں اور لوگ شریعت سے آراستہ و پیراستہ ہوں۔ اسلام کا بول بالا اور علماء و صلحاء کی عزت ہو۔

          شیخ عبدالقدوس نے لودھیوں سے لے کر مغلوں تک تقربیاً پانچ فرمانرواؤں کا زمانہ دیکھا تھا، بہلول لودھی، سکندر لودھی، ابراہیم لودھی، بابر اور ہمایوں ان پانچوں حکمرانوں اور ان کے امراء کو خطوط کے ذریعہ شیخ عبدالقدوس نے اعلائے کلمة الحق۔ ابتاعِ شریعت، عدل و انصاف اور احترامِ علماء کی طرف توجہ دلانے کا اہم فریضہ انجام دیا،مکتو باتِ قدوسیہ میں شیخ عبدالقدوس کے یہ خطوط محفوظ ہیں؛ مگر ہم یہاں ان کے تین خطوط بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں، جن سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے زمانے میں نظامِ اسلام کے قیام کے لیے کتنی سعی وکوشش کی۔

سکندر لودھی کے نام خط

          ”مطلق العنان فرما ں روائی اور فرضِ منصبی کی عظیم الشان ادائیگی یہ ہے کہ اپنے اعمال اور مصروفیات میں بھی صلحاء، علماء، اتقیاء اور اولیاء کے تمام گروہوں اور دین کی راہ میں جنگ کرنے والوں اور مستحکم دربار کے مجاہدوں کے ساتھ عدل وانصاف برتنا؛ اس لیے کہ ایک لمحے کا انصاف اس کی ساٹھ سالہ عبادت سے افضل اور بہتر ہے۔

          دنیا میں ائمہ اور مجبور علماء کا ایک گروہ ہے چاہیے کہ آپ کے جیسے مبارک فرماں روا اور دنیا پر حکومت کرنے والی سلطنت کے زمانے میں وہ لوگ ایسی رونق اور عزت حاصل کریں کہ ہر زمانے اور ہر مملکت کے مقابلے میں انھیں عزت و بڑائی حاصل ہوا ور سارے فاجر لوگ آپ جیسے فرماں روا کی سلطنت کے جلال اور آبدار تلوار کے خوف سے عدم کی اندھیری رات کی سیاہی میں سماجائیں اور غائب ہو جائیں، پس اگر آپ جیسے حکمراں خدا نخواستہ کمزوروں، صلحاء اور مشائخ کی غم خواری اور تیمارداری، مہربانی اور کامیابی کے ساتھ نہ کریں اور ان لوگوں سے غفلت برتیں اور بے خبر ہو جائیں تو پھر ہر طرف فتنہ و فساد حکمرانی کرے گا، اسی بنا پر یہ بات یقینی ہوئی کہ انسان کی بزرگی کا درجہ دوکاموں پر منحصر ہے اور ہمیشگی کی سعادت اس دنیا اور اس دنیا کی دولت بھی اسی سے متعلق ہے، یعنی خداوند تعالے کی فرما بزداری، صدق و اخلاص سے کرنا، دوسرے خلق اللہ کی خدمت اپنی سکت اور طاقت کے مطابق کرنا جیسا کہ آپ … نے فرمایا:

           دوعادتیں ایسی ہیں کہ جن سے بہتر کوئی چیز نہیں، اللہ پر مکمل ایمان رکھنا اور اس کی محلوق کو نفع پہنچانا۔

          ان دونوں نیکیوں کا اجتماع کا ملاً سلطان کی ذات میں ہے کہ اس کا فائدہ اور اس کی شفقت تمام دنیا والوں کے لیے ہے، کتنا اچھا ہے وہ دین اور دنیا کہ جب دونوں مل جائیں اس کی تفسیر اور یہ دولت بلند ہمت سے حاصل ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ تمام چیزوں سے بلند و برتر ہو جائے اور اس چیز کو ”فتوت“ کہتے ہیں اس قول کے مطابق کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے، یعنی اس کا حال یہ ہوتا ہے، ہر وہ شخص جو صاحبِ ہمت ہوا وہی مرد بہادر کہلایا، خورشید کی مانند وہ اپنی بلندی میں ممتاز و یکتا ہوا، بادشاہ کو بلند ہمت ہونا چاہیے۔ روپیہ، پیسہ، مرتبہ اور بزرگی فقراء اور صلحاء پر نثار ہونا چاہیے، ان کی محبت کی خدمت میں اس سعادت کے لیے وہ کوشاں رہے، جس نے علم اور علماء کو عزیز رکھا، اس نے گویا پوری زندگی کامیابی کے ساتھ گزاری، ذیل کی عبارت میں یہ بات ظاہر اور روشن ہے: اے داؤد جب تم میرا کوئی طالب دیکھو تو پوری طرح سے اس کے خادم ہوجاؤ۔“(۲۵)

بابر کے نام خط

          مغل فرمانرواؤں میں بابر وہ پہلا حکمراں ہے کہ جسے شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے نظامِ اسلامی کے قیام، شریعتِ اسلامیہ کے فروغ، عدل وانصاف اور حکومت کے نظام کو خلافتِ راشدہ کے طرز پر ڈھالنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھا تھا کہ شہروں کو شریعتِ محمد یہ کے جمال وعدل سے آراستہ کیا جائے، زکوٰة کے علاوہ جو بھی ٹیکس مقرر کیے جائیں وہ شریعتِ اسلامیہ کے مطابق ہونے چاہئیں۔ ملک کے علماء، ائمّہ اور ضعفاء کو اتنی عزت دینی چاہیے کہ وہ ہر زمانے اور ہر ملک میں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔ حکومت کے عہدوں پرامین اور متدین لوگوں کومتعین کیا جائے؛ تاکہ وہ خود بھی اسلام کے پابند ہوں۔ نماز باجماعت اداکریں اور اس طرح دین کمال کو پہنچے۔

          تیمارداری، فقراء، صغفاء ،صلحاء، مشائخین و مساکین کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بابر کو لکھتے ہیں:

          ”اگر خد انحواستہ وہ (بادشاہ) فقراء، ضعغاء، علماء، مشائخ، مساکین کی خبرگیری و غمخواری میں غفلت اور سستی برتتا ہے تو یہ اس کی تباہی کا باعث ہوگا۔ یہی کرنا چاہیے اور یہی اس کو زیب دیتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیے انصاف و عدل کا اس طرح سایہ کرے کہ کوئی شخص کسی شخص پر ظلم نہ کرے اور تمام مخلوق و سپاہ شرع کے مکمل پابندہوں، اور وہ احکام جن کو کرنے کا حکم دیا گیا اور جن باتوں کے لیے منع کیا گیا اس کے لیے مستقل مزاج اور باعزم ہوجائیں۔ نماز باجاعت پڑھیں، علم اور علماء کو عزیر رکھیں۔ ہر شہر میں بازار کے پاسبان و محافظ مقرر کیے جائیں؛ تاکہ شہر اور بازار کو شرعِ محمدی کے انصاف کے حسن سے سنواریں اور روشن و منور کریں۔

          جیساکہ خلفائے راشدین و اسلاف کے عہد میں شرائط کا اجتماع بے خوف و خطر تھا، اسی طرح دنیا کو رونق بخشنے والے کے مبارک دور میں اس کی بے خوف ادائیگی ہو اور دین اپنے عروج پر پہنچے اور اس دور کی وجہ سے قرونِ قرنی کے عہد کی برکتوں کا حسن ظاہر ہو۔ اس کی سلطنت میں دین دار پاک مسلمان، چالاک، مضبوط و مستحکم عقائد والے افراد عہدوں پر متعین و مقرر ہوں۔ مال کا محصول شروع کی رو سے وصول کریں۔ کتنا اچھا ہے وہ دین اور دنیا کہ جب دونوں ساتھ ہوں اور وہ شاہِ عالم پناہ اس کے سامنے خوش حال ہو۔

          یہی چاہیے اور یہی زیب دیتا ہے کہ اسلام کے دیوان اور دارالاسلام میں کفار میں سے کوئی شخص دیوانی کا عہدہ کسی کسی طرح بھی حاصل نہ کر سکے، دفتروں میں قلم نہ چلا سکیں، امیر و عامل میں نہ ہوں، جیسا کہ شرع میں تذلیل ہے، ”اور وہ پست عاجزادر انکسار والے ہیں۔“ اس طرح وہ ذلیل و خوار ہوں، مال گذاری اداکریں، جزیہ اور مال کی زکوٰة شرع کی رو سے ان سے حاصل کریں، ان کو مسلمانوں کی طرح کپڑے پہننے سے روکیں، اپنے کفر کو (کافر) چھپا کر رکھیں کفر کے مراسم غلبہ و اعلان کے طریقے سے نہ کریں(۲۶)؛ تاکہ اسلام کی رونق وعزت کمال تک پہنچے۔ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو نہایت بڑا اور شان والا ہے۔ حال اور مستقبل کی تمام مخلوق بے حساب احسان کرنے میں مصروف ہے، اسی میں دونوں جہاں کی سعادتوں اور دولتوں کی پیش گوئی اور وعدہ کیا گیا ہے؛ جب تک ہو ایسا ہی اور اس سے بھی زیادہ ہو۔“(۲۷)

          مغل حکمرانوں میں ہمایوں دوسرا حکمراں تھا، جسے شیخ عبدالقدوس نے دوخطوط لکھے ہیں۔ پہلے مکتوب میں ہمایوں کو اخلاقِ حمیدہ سے متصف ہونے پر مبارک باد دی۔(۲۸)

          اپنے ایک مکتوب میں ہمایوں کو خدمتِ خلق، علماء صلحاء کی جزگیری وخدمت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

          ”فقراء کی محبت عُروة وثقیٰ ہے اور علماء و صلحاء پر احسان تمسک بہ عُرْوَةُ الوُثْقیٰ ہے، ہر مرض کے لیے دوا،اور ہر مشکل کے لیے باعثِ بخات ہے، خدا کا شکر ہے کہ تم خدمتِ خلق میں، خصوصاً علماء و فقراء کی خدمت میں مشغول ہو، مجھے یقین ہے کہ علماء تمہاری مملکت میں اس سے بھی زیادہ امن وامان سے رہیں گے اور وہ افتخارو اعزاز حاصل کریں گے جو پہلی حکومتوں اور بادشاہوں سے بڑھ جائے گا، ان پر جو بھی داد ودہش ہو وہ دفتری داروگیر سے آزاد ہونی چاہیے؛ تاکہ اس کو بہانہ بنا کر،نا اہل شغل و عمل میں تفرقہ نہ ڈال سکیں۔“(۲۹)

          ہمایوں کے عہدِ حکومت میں شیخ عبدالقدوس تقریباً سات سال حیات رہے اور بادشاہ کو خود بھی شیخ عبدالقدوس سے بڑا تعلق تھا اورعقیدت بھی؛ چنانچہ وہ ان کی خدمت میں حقائق و معارف سمجھنے کے لیے آیا کرتا تھا۔ صاحب مرآةُ الاسرار لکھتے ہیں:

          ”نصیرالدین ہمایوں بادشاہ حقائق ،ومعارف سمجھنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کر تا تھا؛ کیوں کہ آپ اس فن میں ممتاز تھے۔“(۳۰)

          ہم نے یہاں شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے صرف چار خطوط بطور نمونہ پیش کیے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے تمام مکاتیب جوانھوں نے اپنے مریدوں، صاحبزادوں، عزیزوں اور اس دور کے علماؤ مشائخ وغیرہ کو لکھے ہیں، وہ ان کی اصلاحی کوششوں اور روحانی تربیت، جیسے بلند مقاصد کو سامنے لانے میں ہماری بہت مدد کرتے ہیں اور جن سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شیخ عبدالقدوس نے ساری عمر اسی جدو جہد میں گزاری۔ ان کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ انسان اور انسانیت اللہ اور اس کے رسول… کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کے ذریعے ترقی حاصل کریں اور معاشرے میں موجود ساری خرابیاں ختم ہو جائیں یا وہ ساری برائیاں جو معاشرے میں خرابی پیدا کرنے کاسبب ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے لکھے گئے خطوط رشد وہدایت کے کارناموں کے آئینہ دار ہیں، حقیقت یہ ہے کہ شیخ عبدالقدوس کی ان تعلیمی، روحانی اور معاشرتی اصلاحی کوششوں نے انھیں سلسلہٴ چشتیہ صابر یہ کا مجدد بنا دیا، اور ان کے ذریعے سلسلے کو حیاتِ نو اور ایک نیا ہی رنگ حاصل ہوا؛ چنانچہ ایک مکتوب میں اپنے بارے میں خود تحریر فرماتے ہیں:

          ”من ایں سلسلہ رارنگِ دیگر بخشیدہ ام۔“(۳۱)

          (ترجمہ: میں نے اس سلسلے (چشتیہ صابریہ) کو دوسرا ہی رنگ بخشا ہے)

شیخ عبدالقدوس گنگوہی کا مسلک

          تصوف میں وحدتُ الوجود کے مسئلے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ سلسلہٴ نقشبندیہ کے علاوہ اس وقت برِ صغیر میں جو سلسلے رائج تھے، ان کے متقدمین صوفیاء پر وحدت الوجودی رنگ غالب تھا۔ سلسلہٴ چشتیہ کے دوسرے بزرگوں کی طرح شیخ عبدالقدوس بھی اس کے قائل تھے اور دسویں صدی ہجری میں نظریہٴ وحدت الوجود کی تبلیغ واشاعت میں انھوں نے غیر معمولی حصہ لیا؛ لیکن وہ اس نظریہ کے اسی حد تک قائل تھے، جس حد تک کہ اسلام مانع نہیں ہے۔

          شیخ رکن الدین ان کے مسلک کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

          ”ایک دفعہ حضرت شیخ نے گنگوہ میں نمازِ فجر کے بعد وحدتُ الوجود پر گفتگو فرمائی میں اور میرے بھائی شیخ حمید اور شیخ احمد اس مجلس میں حاضر تھے، میں نے آپ سے گزارش کی کہ مسئلہٴ وحدت الوجود، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضوان اللہ عنہم سے کہیں بھی منقول نہیں ہے اور نہ شارح علیہم السلام نے دین کا مدار مسئلہٴ وحدت الوجود پر رکھا ہے اور نہ اس مسئلہ کو بیان کرتے ہیں اور اس پر اعتقا درکھتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن اس مسئلہ پر اعتقاد ہمارے لیے نفرت کا باعث اور مواخذہ کا سبب بنے۔ آپ نے میرے جواب میں فرمایا کہ اگرچہ یہ مسئلہ صراحت سے شریعت میں بیان نہیں کیا گیا ہے؛ لیکن اشارة النص اور دلالةُ النص سے ہمیں اس کے متعلق بہت جگہ ملتا ہے؛ بلکہ بعض جگہ تو صراحت کے ساتھ بھی ملتا ہے؛ لیکن اس کو علمائے ظاہر متشابہ کہتے ہیں اور ظاہر کے مطابق تاویل کرتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ تبعِ تابعین کے عہد میں ظہور میں آیا اور وہ بھی زمانہٴ خیر تھا اور جنھوں نے اس مسئلے کو وجود بخشا، وہ مشائخینِ کبار مقتدایانِ دین اور مجتہدینِ وقت میں سے تھے، تمام علمائے ظاہر انہی کی طرف رجوع کرتے تھے، ہمیں ان کے قول وفعل پر اعتمادِ کلّی رکھنا چاہیے، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر یہ مسئلہ شریعت کے خلاف ہوتا تو حضرت امام اعظم، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام ابویوسف، امام محمد اور دوسرے مشائخینِ کبار رحمہم اللہ یقینا صراحت سے اس کے بارے میں لکھتے کہ یہ مسئلہ شریعتِ اسلامیہ کے خلاف ہے اور ویسے بھی اگر یہ مسئلہ دین کے خلاف اور باطل ہے تو علمائے اہل السنة والجماعة کا فرض تھا کہ وہ اس پر سکوت اختیار نہ کرتے اور اس کی تردید میں مشغول ہوجاتے؛ کیونکہ حق کے متعلق سکوت کرنے والا گونگا شیطان ہے، جس طرح انھوں نے معتزلہ، فلاسفہ اور دوسرے گمراہوں کی تردید کی، اسی طرح اس نظریہ کی بھی تردید کرتے، پس جب ائمہٴ دین نے اس مسئلہ میں سکوت اختیار کیا ہے اور اس کا ردّوانکار نہیں کیا تو اس سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ مسئلہ دین کے خلاف نہیں ہے؛ کیونکہ بیان کے محل میں خامُشی خود بمنزلہٴ اقرار ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے، بعض کثرتِ وجود کے قائل ہیں، جو کثرتِ وجود کے قائل ہیں وہ علماء ظاہر ہیں، اکثر زہاد، عابدین اور مشائخِ کباراسی مسلک پر ہیں، بعض وحدتُ الوجود کے قائل ہیں، یہ بھی موحد اور عارفانِ حقیقتِ وجود ہیں، ان میں بھی جلیل القدر علماء اور مجتہدانِ وقت ہیں اور اہلِ حق کا کشف بھی اس کے حق ہونے پر شاہد ہے، یہ مسئلہ مختلف فیہ تو ہے؛ لیکن مخالفِ دین نہیں اور نہ بندے کے لیے آخرت میں مضر ہے، مسئلہ وحدتُ الوجود، اسرارِ الٰہی میں سے ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے، جس کا تعلق باطنی سر بلندیوں سے ہے، ہر آدمی ہر مرتبہ کے لائق و سزاوار نہیں، یہ مسئلہ اسرارِ الٰہی میں سے ہے؛ اس لیے اس کے اظہار کو بھی کفر کہا گیا ہے؛ اسی لیے جب کوئی منصور، حلاّج، اناالحق کا نعرہ لگائے گا، اسے دار پر جانا پڑے گا، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسائل کی نوعیت مختلف ہے، مثلاً معذور کا مسئلہ علاحدہ ہے اور تندرست کا مسئلہ اس سے محتلف ہے، اسی طرح مسائلِ شریعت، طریقت اور حقیقت جدا جدا ہیں؛ اسی لیے کلمہٴ طیبہ کے مفہوم و مطالب میں لایعوذُ الا اللہ مسئلہٴ شریعت، لامقصود َالااللہ مسئلہٴ طریقت ہے اور لاموجودَ الا اللہ مسئلہٴ حقیقت ہے۔

          تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسئلہٴ وحدت الوجود میں محققین کے اختلاف کی بنیاد ایک دوسرے ہی اختلاف پر مبنی ہے، جو لوگ کثرتُ الوجود کے قائل ہیں، وہ ذات حق سبحانہ تعالے کو کہ واجب الوجود ہے، ماورا ء الوجود کہتے ہیں کہ جس کو ہماری عقل ادراک نہیں کر سکتی، وہ لوگ وجود کو صفتِ لازمی اس ذات کا قرار دیتے ہیں کہ وجود اس ذات سے ازلاً وابد اًجد انہیں ہوتا اور جو لوگ وحدتُ الوجودد کے قائل ہیں وہ حق سبحانہ و تعالی کو عین وجود مطلق قرار دیتے ہیں؛ اس لیے کہ موجودیت میں اعلیٰ مرتبہ وجودِ مطلق ہے اور وہی واجبُ الوجود ہے۔“(۳۲)

          شیخ رکن الدین مزید فرماتے ہیں:

          ”کہ جب یہ مجلس برخواست ہوئی تو حضرت شیخ کو یہ خیال ہوا کہ ابھی یہ لڑکے علمِ معرفت میں ناقص ہیں اور مسئلہٴ وحدت الوجود کے منکر ہیں؛ اس لیے آپ نے فرمایا کہ میں اب ان لڑکوں کے ساتھ نہیں رہوں گا کہ ان کا مسلک و مشرب اور میرا مسلک و مشرب جدا جدا ہیں، پھر میں اور یہ کیسے اکٹھے رہ سکتے ہیں، یہ کہہ کر عالمِ جذب و مستی میں حضرت شیخ وہاں سے روانہ ہو گئے، اس وقت جتنے لوگ بھی وہاں موجود تھے کسی کودم مارنے کی مجال نہ تھی۔ اسی حالت میں جمنا کے کنارے تک پہنچ گئے اور ارادہ تھا کہ تھا نیسر جاکر شیخ جلال تھا نیسری سے بھی معلوم کریں کہ وہ اس مسئلے میں کیا مذہب و مشرب رکھتے ہیں، آخر کار امیر شاہ اسلام نے جو اس وقت ہمایوں کی جانب سے گنگوہ کا دراوغہ مقرر تھا، آگے بڑھ کر شیخ سے عرض کیا کہ اگر بادشاہ کو اس کی خبر ہوگئی کہ آپ گنگوہ سے تشریف لے گئے ہیں تو اس کاعتاب مجھ پر نازل ہوگا۔“(۳۳)

          غرض داروغہ گنگوہ کی مِنَّت و سماجت کے بعد شیخ عبدالقدوس کا غصہ ختم ہوا اور وہ گنگوہ واپس تشریف لے آئے؛ مگر صاحبزاد گان سے پھر بھی کافی دنوں تک ناراض رہے، بقول شیخ رکن الدین:

          ”آپ نے ہم کو چھوڑ دیا تھا، یہاں تک کہ ہمارے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ لڑکے دوسرا ہی مشرب و مسلک رکھتے ہیں، ان کے پیچھے میری نماز نہیں ہوتی۔“(۳۴) یہ کیفیت اس وقت تک باقی رہی؛ جب تک کہ شیخ جلال تھا نیسری کی گنگوہ آمد پران سے اس مسئلہ کی وضاحت نہ کرلی، یعنی کہ وہ مسئلہ وحدت الوجود میں کیا مسلک رکھتے ہیں۔ شیخ جلال نے پیرو مرشد کے خیالات کے مطابق ہی بہت سے مشائخ کے اقوال کی مدد سے اس مسلک کو ثابت کیا تو شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے کرم و مہربانی کرتے ہوئے، انھیں اپنے گلے سے لگایا، اسی وقت صاحبزادگان میں سے کسی نے وحدتُ الوجود سے متعلق کچھ اشعا ر پڑھے جس سے ساری محفل پر عجیب و غریب کیفیت طاری ہوگئی۔ اس واقعے کے آخر میں شیخ رکن الدین لکھتے ہیں:

          ”مجھ پر اور شیخ حمید اور شیخ احمد پر اس واقعے کے دو تین دن بعد تک حضرت شیخ کی خفگی رہی، اس کے بعد آپ نہایت شفقت و محبت سے ہم سے بغلگیر ہوئے اور بے انتہا نوازش فرمائی، اس کے بعد میں نے اور میرے بھائی شیخ حمید اور شیخ احمد نے وحدت الوجود کی تائید میں رسالے لکھے۔“(۳۵) شیخ عبدالقدوس، مسعود بک سے بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ مسعود بک آٹھویں صدی ہجری مطابق چودھویں صدی عیسوی کے مشہور صاحب سکر بزرگ تھے، زیادہ ترجذب ومستی میں غرق رہا کرتے تھے، ان کے حالات میں صاحب الاخبار الاخیار تحریر فرماتے ہیں:

          ”حالت سکرداشت وے از مستان زیادہ وحدت وخم شکنہ خم خانہ حقیقت است، سخن مستانہ می گوید در سلسلہ چشتیہ ہیچ کسی این چنیں اسرار حقیت رافاش نہ گفتہ و مستی نہ کردہ کہ اوکردہ بگویند اشک اوبہ حدّ گرم بود کہ اگر بردست یکے می افتاد می سوخت۔“(۳۶)

          (ترجمہ: وہ حالت سکر میں رہا کرتے تھے وحدت کی شراب کے مستوں اور حقیقت کے شراب خانے کے خم شکنوں میں سے ہیں، وہ مستانہ باتیں کرتے ہیں، سلسلہٴ چشتیہ میں سے کسی شخص نے بھی اسرارِ حقیقت کو اس طرح فاش اور واضح نہیں کیا ہے اور ایسی سرشاری ومستی نہیں کی ہے جیسی کہ انھوں نے ، کہتے ہیں کہ ان کے آنسو اس حد تک گرم ہوتے تھے کہ اگر کسی کے ہاتھ پر ٹپک جائیں تو وہ جل جاتا تھا۔)

          شیخ عبدالقدوس ان کی سرمستی کے قائل تھے، رشد نامہ میں انھوں نے اپنے وحدت الوجودی خیالات کی تائید میں مسعود بک کے خیالات و اشعار سے مدد لی ہے۔ شیخ عبدالقدوس جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ مسعود بک کی سرمستی کے قائل تھے؛ مگر وہ خود صاحب صحو میں سے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جذب ومستی میں رہنے کے باوجود بھی شرعی احکام پر عمل کرنے میں پوری احتیاط سے کام لیتے تھے۔

          شیخ رکن الدین تحریر فرماتے ہیں:

          ”این فقیر صحبت و خدمت حضرت شیخی ووالدی ازبچشگی تاپیری یافتہ بود۔ حضرت ایشان چناں درشارع محمدی و در عقیدہ اہل سنت والجماعت راسخ القدم بود ندکہ ذرہ ازشرع تجاوز نہ بود و صاحب حال و مقام بودند ودرمشاہدہ نور پاک حضرت حق سبحانہ مستغرق بودند۔“(۳۷)

          (ترجمہ: اس فقیر نے جب والد حضرت شیخ کی صحبت و خدمت بچپن سے بڑھاپے تک پائی تھی۔ حضرت محترم شریعت محمدی اور اہل السنة والجماعة کی عقیدت میں ایسے ثابت قدم تھے کہ ایک ذرہ برابر بھی شریعت سے تجاوز نہ فرماتے تھے۔ وہ صاحب حال اور صاحب مقام تھے اور ہمیشہ حضرت حق سجانہ تعالی کے پاک نور کے مشاہدہ میں غرق رہا کرتے تھے)

          شیخ عبدالقدوس کے یہاں تمام مسائل میں مسلک اہل السنة و الجماعة کی سختی سے پابندی اور فقہ حنفی کی پیروی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ شرعی پابندی کا ان کے یہاں یہ عالم تھا کہ اگر کسی چیز میں ذرا بھی شبہ ہوتا، اس سے پرہیز کرتے تھے۔ ان کے تقوی اور احتیاط کا یہ عالم تھا کہ غیر نمازی قصّاب کے ذبیحہ کو بھی کھانا پسند نہ فرماتے تھے۔(۳۸)

          شیخ عبدالقدوس کے یہاں اس غیر معمولی احتیاط اور شرعی احکامات پر عمل کے باوجود بھی سماع سے غیر معمولی رغبت پائی جاتی ہے۔ اپنی اس رغبت کے باوجود انھوں نے کبھی بھی سماع کے مسئلے کو شرعی نقطئہ نظر سے جواز کا رنگ نہیں دیا؛ بلکہ جب کبھی یہ مسئلہ شرعی نقطئہ نظر سے ان کے سامنے رکھا گیا ہمیشہ شرعیت کے حکم کو اپنے پر ترجیح دی اور اپنے عملِ سماع کو ایک مجبور و معذور کا عمل بتایا ہے۔

          سلسلہٴ چشتیہ کے اکابرین سماع کو روحانی غذا قرار دیتے ہیں؛ لیکن اس کے لیے مقررہ آداب کی پابندی بھی لازمی قرار دیتے ہیں۔ شیخ عبدالقدوس گنگوہی رشد نامہ میں سماع کے سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں:

          ”آبِ چاہ بیرون نیا یدتا آنکہ اور اکشندہ بناشد ہم چناں اسرارِ الٰہی ست کہ دردل ست سماع پدید آرندہ آں اسرار است، و درباب سماع فتوی شرع است جائز لاھلہ وحرام بغیر واہل سماع کسے راگویند کہ ہیچ صوت جزپیام دوست نہ شنود وہیچ جمال بغیر جمال دوست نبیند۔“(۳۹)

          (ترجمہ : کنویں سے اس وقت تک پانی باہر نہیں آتا جب تک اسے کوئی نکالنے والا نہ ہو، یہی حال اسرارِ الٰہی کا ہے کہ جو تیرے دل میں ہے، سماع ان اسرار کو لنکال کر ظاہر کرنے والا ہے اور سماع کے باب میں شریعت کا فتوی ہے کہ وہ اہل کے لیے جائز اور نا اہل کے لیے حرام ہے اور سماع کا اہل اس شخص کو کہتے ہیں کہ سوائے دوست کے پیغام کی آواز کے کوئی دوسری چیز نہ سنے اور کوئی جمال سوائے جمال دوست کے نہ دیکھے۔)

شیخ عبدالقدوس کی فارسی ادر ہندی شاعری

          شیخ عبدالقدوس فارسی اور ہندی میں شاعری کا ذوق و شوق رکھتے تھے۔ ان کی تصانیف اور مکاتیب میں ان کے اشعار کثرت سے ملتے ہیں۔ فارسی میں قدوسی اور احمدی تخلص فرماتے تھے، کلام میں بھر پور چاؤ، لذت، کیفیت، سادگی، دل نشینی، سوزو گداز نظر آتا ہے۔

          نظر یہ وحدت الوجود ان کی شاعری کا خاص موضوع ہے۔ درج ذیل غزل میں اسی نظریہ کو ایک نئے انداز میں پیش فرمایا ہے:

غزل

”من نمی گویم انا الحق یار می گوید بگو

چوں نہ گویم، چوں مرا دلدار می گوید بگو

آنچہ نتوان گفت اندر صومعہ با زاہداں

بے تحاشہ برسر بازار می گوید بگو

بندہ قدوس گنگوہی خدا را خود شناس

ایں ندا از غیب با اسرار می گوید بگو“

          (ترجمہ: میں اناالحق نہیں کہتا ہوں یہ تو میرا یار کہتا ہے کہ کہہ میں اناالحق کیوں نہ کہوں جب مراد لدار کہتا ہے کہ کہہ۔ وہ جو کچھ خانقاہوں میں زاہدوں سے نہیں کہا جا سکتا وہ سر بازار بے تکلف کہتا ہے کہ کہہ۔ قدوس گنگوہی کے کانوں میں یہ صدا غیب سے باسرار آتی ہے کہ خدا کو خود پہچان اور کہہ)

          تصوف کے رنگ میں ڈوبے ہوئے شیخ عبدالقدوس کے کلام کے نمونے کے طور پر یہ شعر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔

”احمدی درکار حق جاں رابیاز

تاشود حق یار وہم محسن ترا“

          ہندی شاعری:ان کی ہندی شاعری میں بھی فارسی شاعری کی طرح وحدت الوجودی یا صوفیانہ رنگ پوری طرح رچا بسا ہے، ہندی شاعری میں ایسا لگتا ہے کہ شیخ عبدالقدوس کسی سے اصلاح بھی لیا کرتے تھے۔ اپنے استاد کے نام کا ذکر تو براہ راست کہیں نہیں کہا ہے؛ لیکن شیخ جلال تھا نیسری کے نام ایک مکتوب میں اپنے استاد کا دوہا نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

           استادیں فقیر گوید

          یہ جگ وہ جگ دیوتن من ارتھ بھندار

          سائیں کے رے سیس کا جود کھرادے بار۔“(۴۰)

           اسی دوہے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہندی شاعری میں کسی کو اپنا استاد سمجھتے تھے۔ اور خود ان کا اپنا ہندی کلام بھی ان کی تصنیف ”رشد نامہ“ میں ہمیں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ یہاں چند اشعاران کے ہندی کلام سے بہ طور نمونہ پیش کیے جا رہے ہیں:

”دھن کا رن پی آپ سنوارا

بن دھن کنت کنہارا

شہ کھیلے دھن بانہیں ایواں

باس پھول منہ اچھے جیسواں

کیوں نہ کھیلوں تج سگ میتا

مج کا رن تیں اپنا کیتا

”الکھ داس“ آکھے سن ہودی

سوئی پاک ارتھ پہن ہوی۔“(۴۱)

          (ترجمہ: معشوق کے لیے یعنی خود اپنے آپ کو سنوارا ہے، یعنی ہر چیز میں اسی کا وجود ہے، معشوق نہ ہوتا تو پیا کہاں ہوتا، یعنی اس کی شناخت کون کر واتا، معشوق کی بانہوں میں وہ ایسے موجود ہے جیسے پھول میں مہک موجود ہوتی ہے، اے دوست میں تیرے ساتھ کیوں کہ کھیلوں (محبت کروں) کیونکہ تونے میرے لیے یہ سب کچھ (دنیا) سنوارا ہے، الکھ داس کہتا ہے کہ پھر یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا اور پھر وہی پاک لفظ اللہ باقی رہ جائے گا۔)

          شیخ عبدالقدوس گنگوہی، ہندی شاعری میں الکھ داس تخلص فرماتے تھے۔

شیخ عبدالقدوس کی تصانیف

           ان کی عمر کا زیادہ ترحصہ ریاضتوں، مجاہدوں، عباداتِ الٰہی اور مریدوں کی اصلاح و تربیت میں گزرا؛ مگر ان تمام مشغولیات کے باوجود بھی انھیں نے اپنی غیر معمولی علمی صلاحیتوں کیوجہ سے متعدد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔ شیخ رکن الدین تحریر فرماتے ہیں:

          ”اما بعلمِ لدنی وفیضِ الٰہی چنداں استعداد بود کہ درعلمے بحثہا غریب کر دن و تصانیف بسیار کردند۔“(۴۲)

          (ترجمہ: علم لدنی اور فیض الٰہی سے اس قدر با استعداد تھے کہ ہر علم میں عجیب و غریب بحثیں کیں اور بہت ساری کتابیں تصنیف فرمائیں۔)

          ان کی مشہور تصانیف میں درج ذیل کتابوں کا ذکر ملتا ہے۔

          (۱) بحر الانشعاب علم صرف کی کتاب ہے جو زمانہٴ طالب علمی میں لکھی تھی۔ (۲) شرح مصباح (۳) حاشیہ شرح صحائف (۴) شرح عوارف (۵) فوائد القراء ت (۶) رسالہٴ قدّوسی (۷) رشدنامہ (۸) نورا لمعانی، شرح قصیدہ امانی (۹) انوار العیون (۱۰) مظہر العجائب (۱۱) مجموعہٴ کلام فارسی (۱۲) رسالہ نورا لہدی (۱۳) رسالہ قرة العین (۱۴) مکتوبات قدّوسیہ (۱۵) اسرارالعجائب (۱۶) اور ادِ شیخ عبدالقدوس ۔

          شیخ عبدالقدوس گنگوہی کی نسبی اولادوں کے سلسلے میں مختلف تذکرہ نگاروں نے اپنے اپنے اندازوں کے مطابق صاحبزاد گان کی تعداد لکھی ہے، مثلاً کسی نے سات لکھی ہے اور کسی نے دس لکھی ہے۔ ہاشم کشمی نے زبدة المقامات میں تعداد سات لکھی ہے:

          ”شیخ را ہفت پسر بودہ کہ ہریک درحال و قال بے مثل بود۔“(۴۳)

          (ترجمہ: شیخ کے سات صاحبزادے تھے اور ہر ایک ان میں سے حال و قال میں بے مثل تھے)

          شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے حالات کے سلسلے میں سب سے زیادہ معتبر یا قابلِ اعتبار کتاب لطائفِ قدوسی کو سمجھا جا سکتا ہے؛ کیونکہ شیخ رکن الدین کی یہ مشہور و معروف تالیف ہے، جسے انھوں نے شیخ عبدالقدوس کی حیات میں ہی مکمل فرمالیا تھا ۔ اس کتاب میں شیخ رکن الدین نے جہاں اپنے بھائیوں کا تذکرہ کیا ہے، وہاں صرف درج ذیل چار ناموں کا ہی اظہار فرمایا ہے:

          (۱) شیخ حمید الدین (۲) شیخ احمد (۳) شیخ رکن الدین (۴) شیخ محمد علی۔

          اصولی طور پر اس سلسلے میں صرف لطائف قدوسی پر ہی اعتبار کیا جانا چاہیے؛ چونکہ یہ کتاب شیخ رکن الدین نے شیح عبدالقدوس گنگوہی کی حیات میں ہی ان کی اجازت سے لکھنی شروع کر دی تھی اور اس کی تکمیل ان کے انتقال کے دوماہ بعد ہوگئی تھی۔

          شیخ رکن الدین لطائفِ قدوسی میں خود تحریر فرماتے ہیں:

          ”ایں فقیر بجہتِ جمعِ اوراق رخصت خواستہ و عرض کردکہ بعضے حکایات ذاتِ شریف کہ اززبانی مبارک شنیدہ ام و بعضے معائنہ و مشاہدہ کردہ ام یاد دارم میخواہم کہ درتحریر آرم، فرمانی شد علم ہمان است، بنا براں ہمت بر بستم و قلم تحریر راندم، بعضے حکایات درصدد حیات حضرت قطبی و شیخی درماہ جمادی الاولیٰ و جمادی الاخریٰ سنة اربع و اربعین و تسعمائة مرقوم گشتند وباقی دیگر بعد ازوفات با تمام پیو ستند، وچوں مضمون ایں اور اق ازلطائفِ اخبار حضرت قدوسی بود نامش لطائف قدوسی نہادم۔“(۴۴)

          (ترجمہ : اس فقیر نے اوراق کو جمع کرنے کی اجازت چاہی اور عرض کیا کہ بعض حکایات جو آپ کی ذاتِ شریف سے متعلق ہیں اور آپ ہی کی زبانِ مبارک سے سنی ہے اور بعض چیزوں کو میں نے خود دیکھا اور ان کا مشاہدہ کیا ، وہ مجھے یاد ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ انھیں لکھ لوں، حکم ہوا علم یہی ہے؛ چنانچہ اس بنا پر میں نے ہمت کی اور تحریر کا قلم چلایا بعض حکایتیں حضرت قطبی و شیخی کی حیات کے زمانے میں ۹۴۴ھ جمادی الاول اور جمادی الآخر کے مہینوں میں ضبط تحریر میں آئیں اور باقی دوسری حکایتیں آپ کی وفات کے بعد اختتام پذیر ہوئیں؛ چونکہ ان اوراق کا مضمون جناب حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے عمدہ لطائف پر مشتمل تھا؛ اس لیے میں نے اس کا نام لطائفِ قدوسی رکھا)

خلفاء

          تذکرہ نگاروں نے شیخ عبدالقدوس کے خلفاء کی تعداد بہت زیادہ لکھی ہے، بعض نے یہ تعداد ایک ہزار بتائی ہے۔ صاحب اخبار الاخبار لکھتے ہیں:

          ”شیخ عبدالقدوس رامر ید ین و خلفاء بسیاراند۔“(۴۵)

          (ترجمہ: شیخ عبدالقدوس کے مرید اور خلقاد بہت ہیں)

          شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے خلفاء میں صاحبزادگان کے علاوہ درج ذیل خلفاء کے نام خاص طور پر مشہور اور قابلِ ذکر ہیں۔

          (۱) عبدالغفور اعظم پوری (۲) شیخ بھورا (۳) شیخ بڈھن جون پوری (۴) شیخ عبدالرحمن شاہ آبادی (۵) شیخ عزیز اللہ دانشمند (۶) شیخ جلال تھانیسری۔

          شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے ان مشہور و معروف خلفاء کے ذریعے سلسلہٴ چشتیہ صابریہ کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ شیخ جلال تھا نیسری کو ان حضرات میں بھی ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے وصال کے بعد سلسلہٴ صابر یہ کے فروغ اور ان کی جانشینی کی ذمہ داری شیخ جلال کے سپرد ہوئی، اس طرح سلسلہٴ صابر یہ کا مرکز گنگوہ سے تھا نیسر منتقل ہوا۔

شیخ عبدالقدوس کی وفات

          شیخ عبدالقدوس گنگوہی اپنی وفات سے تین سال قبل گوشہ نشینی اور تنہائی کی زندگی اختیار کر چکے تھے، زیادہ تر ان پر محویت اور بے خودی کا عالم طاری رہتا تھا۔ نماز کے اوقات میں خدام انھیں مطلع کرتے، ادائیگی نماز کے بعد پھر اسی عالمِ جذب ومستی میں غرق ہوجایا کرتے تھے، آخری ایام میں کئی روز تک بخار کے مرض میں مبتلا رہے، بالآخرکا ۹۴۴ھ مطابق ۱۵۳۰ء کو وفات پائی اور گنگوہ میں مدفون ہوئے۔

***

حواشی

(۱)      مولانا عبدالحئی نزہت الخواطر دائرة المعارف حیدرآباد ۱۹۵۵ء، ج سوم، ص ۲۱۳

(۲)      محمد قاسم فرشتہ تاریخِ فرشتہ ۱۸۷۴ء، ص ۵۵۸

(۳)     نزہة الخواطر، ج سوم، ص۱۱۹

(۴)     لطائف اشرفی بحوالہ نزہة الخواطر، ص ۱۱۹

(۵)      مرأة الاسرار قلمی

(۶)      بحوالہ شجرہٴ حسب و نسب شیخ عبدالقدوس گنگوہی (اہلِ خانہ سے حاصل ہوا)

(۷)     مفتاح التواریخ آگرہ ۱۸۴۹ء، ص۲۲۲

(۸)     شیخ رکن الدین لطائفِ قدوسی مکتبہ مجتبائی دہلی ۱۸۹۳ء، ص ۹

(۹)      کافیہ عربی گرامر کی مشہور کتاب ہے۔

(۱۰)     اصولِ فقہ کی مشہور اور اہم کتابیں ہیں۔

(۱۱)     لطائفِ قدوسی لطیفہ، ص۸۲

(۱۲)     شیخ عبدالقدوس انوارالعیون قلمی، ص۲۵

(۱۳)    لطائف قدوسی لطیفہ، ص۲۵

(۱۴)    ایضاً

(۱۵)     خزنیة الاصفیا، ج اول، ص۴۱۷

(۱۶)     انوارالعیون، ص۲۵

(۱۷)    محمد ابن احمد ابن عثمان شرف المناقب قلمی کتب خانہ دارالعلوم دیوبند، ص۵۵

(۱۸)    محمد مبین موٴلف بحر زخار قلمی نیشنل میوزیم، نئی دہلی، ص۲۲۵

(۱۹)     ضلع سہارنپور یوپی کے شمال میں ایک قدیم قصبہ ہے۔

(۲۰)    لطائفِ قدوسی لطیفہ، ص۷۷

(۲۱)     ایضاً

(۲۲)    ملا عبدالقادر بدایونی منتخب التواریخ (اردو) ۱۹۶۲ء، ص ۲۲۰

(۲۳)    لطائف قدوسی لطیفہ، ص ۷۷

(۲۴)    شیخ عبدالحق محدث دہلوی اخبار الاخبار، ص ۸

(۲۵)    شیخ بڈھن مرتب مکتوباتِ قدوسیہ مطیع احمدی، دہلی ۱۸۹۹ء، ص ۴۴ تا ۴۶

(۲۶)    ایضاً، مکتوب ص۱۸۹، ص ۳۳۴ تا ۳۳۵

(۲۷)    ایضاً، مکتوب ص۱۷۵، ص ۳۳۷ تا ۳۳۸

(۲۸)    ایضاً

(۲۹)    ایضاً، مکتوب ص ۱۷۱، ص ۳۳۸

(۳۰)    مرأة الاسرار قلمی

(۳۱)    مکتوبات قدوسیہ مطبع مجتبائی دہلی ۱۸۹۶ء، ص ۵

(۳۲)    لطائف قدوسی لطیفہ ص۷۱

(۳۳)    ایضاً

(۳۴)    ایضاً

(۳۵)    ایضاً

(۳۶)    اخبار الاخیار، ص۱۶۴

(۳۷)    شیخ عبدالقدوس رشدنامہ مطبع مسلم پریس چھجریا ۱۸۹۶ء، ص ۳۵ تا ۳۶

(۳۸)    لطائفِ قدوسی لطیفہ ۲۰

(۳۹)    رشدنامہ، ص ۲۵

(۴۰)    منتخب مکتوباتِ قدوسیہ

(۴۱)    ایضاً

(۴۲)    لطائفِ قدوسی لطیفہ، ص۸

(۴۳)    ہاشم کشمی زبدة المقامات، ص ۹۹

(۴۴)    لطائفِ قدوسی، ص۳

(۴۵)    اخبار الاخبار، ص۲۱۵

***

--------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 9 - 10 ‏، جلد: 97 ‏، ذیقعدہ – ذی الحجہ 1434 ہجری مطابق ستمبر – اکتوبر 2013ء